ولایت فقیہ کتابچہ
باسمہ تعالی
ولایت فقیہ کے موضوع کو کئی طریقوں سے بیان کیا جاسکتا ہے۔ ایک دفعہ علماء کے اس موضوع پر جو بیانات ہیں ان کی جمع آوری کرکے اس موضوع کی اہمیت کو بیان کیا جاسکتا ہے تو کبھی ولایت اللہ کو اثبات کرنے کے بعد اس ولایت کو فقہاء کی ولایت سے متّصل کرکے اس موضوع کو بیان کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ولایت فقیہ کے موضوع پر روایات کی جمع آوری کرتے ہوئے ان سے ولایت فقیہ کے اثبات کو بیان کیا جاتا ہے۔
لیکن جو روش امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے اختیار کی ہم اس تحریر میں اس روش کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کوشش کریں گے اس اہم ترین موضوع کو عام فھم انداز میں بیان کریں۔ امام خمینی رح نے ولایت فقیہ کے اثبات کے لئے پہلے حکومت اسلامی کی ضرورت کا اثبات کیا پھر جب حکومت اسلامی کی ضرورت ثابت ہوگئی تو حکومت کے حاکم کے عنوان سے فقیہ کی اہمیت پر گفتگو کی۔
اس تحریر میں پہلے حکومت اسلامی کی ضرورت پر بحث کی جائے گی اور جس حد تک ممکن ہو علمی اصطلاحات کو عام فھم انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ امید ہے کہ یہ تحریر “ولایت فقیہ” کے موضوع کو سمجھنے کے لئے مددگار ثابت ہوگی۔
موضوع کا تعارف
کیا غیبت کے زمانے میں حکومت اسلامی کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو ولی فقیہ کہ جس کے پاس حاکمیت اور طاقت ہو اور جو احکام اسلامی کو اجراء کروائے، پھر اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر حکومت اسلامی کی غیبت کے زمانے میں ضرورت ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے مشخصا کوئی حکومت کو چلانے کے لئے نامزد نہیں ہوا ہو تو ایسی صورتحال میں کس کو حکومت اسلامی کا حاکم ہونا چاہئے؟ یہ بات واضح ہے کہ حکومت کا کوئی نہ کوئی حاکم ہونا چاہئے اور یوں اسلامی حکومت کو بھی ایک حاکم کی ضرورت ہے تو سوال یہاں یہ ہے کہ کس کو حکومت اسلامی کا حاکم ہونا چاہئے؟ کیا کسی ایسے شخص کو اس اسلامی حکومت کا حاکم نہیں ہونا چاہئے کہ جو اسلامی احکام سے بہترین انداز سے آگاہ ہو اور اس کے ساتھ ساتھ ان کو اجراء کرانے کی قابلیت بھی رکھتا ہو۔ اور اسی حاکم کو علمی اصطلاح میں “ولی فقیہ” کہا جاتا ہے۔
موضوع کو بیان کرنے سے پہلے جو اصطلاحات اس تحریر میں استعمال ہوں گی ان کی مختصر وضاحت پیش کرتے ہیں:
۔1 حکومت
عربی زبان میں حکومت کو “دولت” کہتے ہیں کہ جس کے معنی ایک شخص کے کسی علاقے پر سیاسی تسلّط اور حاکمیت کے ہونے کے ہیں کہ جس کے ذریعے وہ احکام اور قوانین کو اجراء کرسکے۔
۔2 .ولایت
ولایت سے نکلے ہوئے سارے الفاظ جیسے ولاء، وَلایت، وِلایت، ولیّ، مولی، اولی اور ان کے علاوہ دوسرے مشتقات، ان سب کا اصلی مادّہ و- ل- ی ہے۔ قرآن میں یہ مادّہ مختلف کلمات کی صورت میں 236 مرتبہ استعمال ہوا ہے۔
اس لفظ کا اصلی معنی ایک چیز کا دوسری چیز کے ساتھ کچھ اس طرح قرار پانا کہ ان کے درمیان کوئی فاصلہ نہ رہے۔ مثلا احمد زید کے ساتھ ساتھ بیٹھا ہے تو عربی میں کہا جائے گا، “جلس احمد ولیُّهُ زید”۔
اب دوست، سرپرست، مدد، اور جتنے بهی معنی ہیں، سب کی اساس یہی اصلی معنی ہے کیونکہ دوست نزدیک ہوتا ہے یا سرپرست احاطہ رکهتا ہے۔
اسی طرح عبد اور معبود کے درمیان جب فاصلے کم ہوجاتے ہیں اور نفس پرستی اور خواہشات وغیرہ کے حجابات نہیں رہتے تو اس کیفیت کو ولایت کہا جائیگا یعنی جتنا انسان اللہ کے احکام پر عمل کرے گا اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرے گا تو گویا اس نے اللہ کی ولایت کو زیادہ سے زیادہ قبول کرلیا ہوگا اور وہ اس ولایت میں آگے سے آگے بڑه رہا ہوگا۔
اور اسی ضمن میں یہ آیت شریفہ دیکهیں کہ “أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّه لَا خَوْفٌ عَلَيْهمْ وَ لَا همْ يحَزَنُون (یونس ۶۲)
سن رکهو کہ جو خدا کے دوست ہیں ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے۔
یعنی یہی وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اللہ کی ولایت کو کاملا قبول کیا اور اس میں تمام کے تمام داخل ہوگئے۔
اس سے پہلے کہ ہم حکومت اسلامی کی غیبت کے زمانے میں ضرورت کو بیان کریں اور ولایت فقیہ کو اس کے تناظر میں سمجهیں، کچھ باتوں کو مقدماتی طور پر بیان کرتے ہیں اس تصوّر کے ساتھ کہ یہ ہمارے اذہان میں پہلے سے تسلیم شدہ ہیں۔
۱۔ ہم اللہ تعالی اور رسول خدا ص کی رسالت پر ایمان رکهتے ہیں۔ قرآن اور سنّت پر اس ایمان کے ساتھ نگاہ کرتے ہیں کہ یہ ہمارے لئے حجّت ہیں ہیں یعنی ان میں جو کچھ آیا ہے ہمارے لئے واجب العمل ہے۔
۲۔ انسان ایک حکومتی نظام کے بغیر نہیں رہ سکتا یعنی انسان کی بقاء کے لئے ایک نظام کی ضرورت ہے کہ جس میں وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ ایک قانون کے دائرے رہتے ہوئے زندگی گزارتا ہے کہ اگر یہ قانون اور حکومت نہ ہو تو اس کا وجود خطرے میں پڑ جائے کیونکہ لوگوں کے مفادات اور خواہشات آپس میں ٹکراتے ہیں کہ جس ٹکرائو کو صرف قانون اور حکومت ہی روک سکتی ہے۔ اور اسی طرف اشارہ کرتے ہوئےامیر المومنین ع نے فرمایا:”لَا بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ أَمِيرٍ بَرٍّ أَوْ فَاجِرٍ” (نهج البلاغة (للصبحي صالح) ؛ ؛ ص82)
لازم ہے لوگوں کے لئے کہ ان کا حاکم ہو اب چاہے وہ نیک ہو یا فاجر۔
۳۔ ولایت اور سرپرستی صرف اللہ تعالی کے لئے مخصوص ہے۔ قرآن میں واضح ارشاد ہوا؛ “فَاللَّه هوَ الْوَلِي” (الشوری ۹)
پس سرپرست تو صرف اللہ ہے۔
۴۔ دین مبین اسلام انسان کے تمام مسائل کے لئے ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوا؛ ” إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّه الْإِسْلام” (آل عمران/19)
دین تو خدا کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے۔
تو انسان پر لازم ہے کہ اگر وہ دنیا و آخرت میں سعادت و کامیابی چاہتا ہے تو اپنی زندگی دین کے احکام کے مطابق گزارے۔
جب یہ مقدمات ذکر ہوگئے تو اب ایک نئی جہت سے بات شروع کرتے ہیں۔
حکومت انسانی معاشرے کے لئے ضروری ہے چاہے عادل کی ہو یا فاجر کی۔ اب سوال یہ ہے کہ کون سی حکومت اسلام کی نگاہ سے شرعی ہے؟
یہاں مختلف نظریات ہیں:
کوئی کہتا ہے کہ یہ مسئلہ موروثی ہے، یعنی اگر باپ بادشاہ ہے تو اُس کا بیٹا بهی بادشاہ ہوگا۔
کوئی کہتا ہے، جس نے کسی علاقے پر غلبہ حاصل کرلیا تو وہ حاکم ہے۔
بہرحال ۳ طرح کی حکومتیں تصور کی جا سکتی ہیں:
۔۱ شرعی حکومت کہ جو واضح دلایل سے ثابت ہو۔
۔۲ غیر شرعی حکومت؛ کہ جس کا باطل ہونا واضح دلایل سے ثابت ہو۔
۔۳ وہ حکومت کہ جس کا شرعی ہونا مشکوک ہو۔
مسئلہ تیسری قسم میں ہے کیونکہ ظالم حکمران اپنی اپنی حکومتوں کو شرعی حیثیت دینے کے لئے درباری ملائوں سے جهوٹی دلیلیں حاصل کرتے اور یوں مشکوک دلائل سے حکومت کو مشروع بنا لیتے۔
سوال: جہاں شک ہو کہ حکومت شرعی ہے کہ نہیں تو کیا جائے؟
ج؛ پہلی بات یہ ہے کہ اصل یہ ہے کہ صرف اللہ تعالی سلطان اور حاکم ہے۔ اب کوئی اور اسی وقت حاکمیت رکھ سکتا ہے جب تک اس کے پاس واضح طور پر اللہ تعالی کا اذن ہو۔
اب جب کے ایسی وضاحت اس مشکوک حاکم کے پاس نہیں، تو اس کی حاکمیت ثابت نہیں۔
دوسری دلیل کہ جس سے مشکوک حاکمیت کا باطل ہونا ثابت ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کی عقل یہ کہتی ہے کہ سارے انسان آپس میں برابر ہیں۔ سب انسان آزاد خلق ہوئے ہیں، سب اختیار رکھتے ہیں اور کسی کو کسی پر حاکمیت کا حق حاصل نہیں۔ اس جہت سے وہ حاکمیت کہ جو مشکوک ہو اس کو باطل کہا جائے گا کیونکہ ایسی صورت میں صرف اس شخص کو حاکمیت کا حق حاصل ہوگا کہ جو اللہ تعالی سے حاکمیت کا واضح اذن رکھتا ہو۔
اب جب یہ بات واضح ہوگئی کہ صرف وہی حکومت اسلامی ہے کہ جو واضح طور اپنے اسلامی ہونے کی دلیل رکھتی ہو تو دیکهتے ہیں کہ تاریخ اسلام میں شرعی طور پر حکومت اسلامی بنائی گئی ہے یا نہیں؟
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ حکومت کے تحت زندگی گزارنا انسان کی ضرورت ہے۔ اور اسلام کے قوانین انسان کی فطری ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے بنائے گئے ہیں اسی لئے یہ سوال انتہائی نامناسب ہے کہ اسلامی تاریخ میں مسلمانوں نے حکومت اسلامی کے قیام کی کوششیں کی کہ نہیں؟! لیکن بہرحال اس نکتے پر اجمالی طور پر نگاہ ڈالتے ہیں۔
تاریخ اسلام پر نظر ڈالیں تو حکومت کی تشکیل کو مسلمانوں کے درمیان چاہے وہ شیعہ ہوں یا سنّی، ایک مسلّم حقیقت اور دینی اصل (اصول دین) کے طور پر دیکها گیا ہے۔ اگر نیچے بیان کئے گئے نکات پر غور کریں تو ہمیں اس بات کا واضح طور پر اندازہ ہوجائے گا کہ اسلام اور مسلمانوں نے سیاست اور حکومت کے قیام کے لئے اپنے اپنے فهم اور ارادوں کے ساتھ کوششیں کیں:
۔۱ رسول خدا ص کا اپنے وصی کی جانشینی کے لئے اقدام کرنا اور دوسروں کا اس پر اختلاف کرنا۔
۔۲ خود رسول خدا ص کی سیرت اس بات پر دلیل ہے کہ آپ ص نے حکومت قائم کی اور حکومتی اقدامات انجام دیئے۔ مثلا رسول خدا ص نے لوگوں کے آپس کے مسائل اور جهگڑے حل کئے۔ اُن میں آپس میں عقد اخوت پڑھوایا یعنی حاکم کے عنوان سے ان وظایف کا انجام دینا بهی آپ ص کے رسالت کے کاموں میں سے ایک کام تها اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو کیوں آنحضرت ص نے ان اُمور پر اتنا وقت صرف کیا؟؟؟
بطور مثال سمرہ بن جندب کی داستان پیش کرتے ہیں کہ جو شیعہ اور سنّی دونوں مکاتب کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے۔ داستان کچھ یوں ہے کہ سـمـره بـن جـنـدب ایک انصاری کے باغ میں کجهور کے درخت کا مالک تها۔ اُس انصاری کا گهر باغ کے ساتھ کچھ اس طرح تها کہ جب بهی کسی کو باغ میں جانا ہوتا تو گهر کے صحن سے گزرنا لازم تها۔ سمرہ، انصاری سے بغیر اجازت لئے باغ میں اپنے کجهور کے پیڑ کی دیکھ بهال کے لئے آتا جاتا تها۔ اس انصاری نے سمرہ سے چاہا کہ جب آنا چاہو تو اجازت لے لیا کرو لیکن سمرہ نے یہ بات قبول نہیں کی۔ انصاری نے رسول خدا ص سے شکایت کردی۔ رسول خدا ص نے سمرہ کو بلایا اور اس سے کہا کہ جب وہ باغ میں جانا چاہے تو انصاری سے اجازت لے کر جایا کرے لیکن اس نے یہ بات نہیں مانی۔ پهر رسول خدا ص نے کہا کہ یہ درخت ہمیں دے دو اور اس کے مقابلے میں جنّت میں درخت کے مالک بن جائو۔ سمرہ نے یہ بهی نہیں مانا۔ تو رسول خدا ص نے انصاری سے کہا کہ اس کے درخت کو اکهاڑ کر لے آئو اور اس کے سامنے ڈال دو۔ جب ایسا کرلیا گیا تو رسول خدا ص نے سمرہ سے کہا؛ تو ایک نقصان پہنچانے والا انسان ہے اور مومن نہ کسی کو نقصان پہنچاتا ہے اور نہ ہی اُس کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے۔ اب جا جہاں چاہے اس کو اُگا لے۔[1]
امام خمینی رح اپنی کتاب الرسائل کی جلد 1 ص 50 میں اوپر بیان کی گئی حدیث اور اس کے اندر بیان کئے گئے قاعدہ لا ضر و لا ضرار کی تبیین کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سمرہ بن جندب پر جاری یہ حکم رسول خدا ص کی طرف سے بعنوان سائس البلاد یعنی مملکت اسلامی کے چلانے والے ناظم اور رئیس العباد یعنی اللہ کے بندوں کے سربراہ ہونے کے عنوان سے صادر ہوا اور یہ حکم ان تکلیفی احکام سے مختلف ہے کہ جو رسول خدا ص کی تبلیغی رسالت سے مخصوص ہیں یعنی مثلا نماز و روزے کے احکام کو پہچانا۔
3۔ رسول خدا ص کی زندگی کے بعد بلا شک و شبہہ شیعہ و سنّی دونوں گروہوں نے حکومت بنانے کی کوششیں کیں۔ خلافت پر اختلاف، سقیفه بنی ساعده کا برپا ہونا، جنگ جمل اور واقعہ کربلا کے دردناک واقعات، پهر اس کے بعد بنی امیہ اور عباسیوں کی خلافت پر جنگ۔ یہ سب اس بات پر گواہ ہیں کہ دین کے نام پر حکومت کے قیام کی مسلمانوں میں کتنی اہمیت تهی اور اس کی خاطر انہوں نے ہر حربہ استعمال کیا۔
بہرحال جس طرح پہلے ذکر ہوا کہ مسلمان حاکم اس بات کی کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح ان کی حکومت کو مشروعیت حاصل ہوجائے۔ اس تناظر میں اہل سنّت نے اپنی حکومتوں کو اس بات سے مشروع کیا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کا راہنما اور امام ہونا چاہئے اور اس کا اسلامی معاشرے میں ہونا واجب ہے لیکن سوال یہ ہے کہ امام کون ہو؟ کیا ہر کوئی مسلمانوں کا امام بن سکتا ہے؟ اس کا تعیُّن کیسے ہوگا؟ اہل سنّت کے علماء کے درمیان اس موضوع پر مفصل بحث ہے کہ یہاں اس کو چهیڑنا مقصود نہیں۔
دوسری طرف شیعہ بهی یہ بات کرتے ہیں کہ امام کا ہونا واجب ہے۔ اہل سنّت اور اہل تشیع کے امامت کے موضوع پر عقیدہ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اہل تسنن یہ کہتے ہیں کہ امام اور رہبر کوئی بهی ہوسکتا اور جب کہ اہل تشیع کا یہ عقیدہ ہے کہ امام اور رہبر کا تعیُّن صرف خدا کرسکتا ہے اور انسانوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے لئے امام اور رہبر کا انتخاب کریں۔
:قرآن میں حکومت اور حاکمیت کے موضوع پر آیات
خود قرآن کے مزاج کو اگر دیکھیں تو اس سے واضح ہوگا کہ کتنی آیات میں حکومت اور ولایت کی طرف اشارہ ہیں کہ جس سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اسلام میں حکومت کی کتنی اہمیت ہے۔ ان آیات کی دستہ بندی کرتے ہوئے ان کو پیش کرتے ہیں:
۔۱ وہ آیات کہ جو رسول خدا ص کے سیاسی وظایف کی نشاندہی کررہی ہیں
“النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنينَ مِنْ أَنْفُسِهم” (الأحزاب/6)
نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے۔
یہاں آیت میں جس ولایت اور تسلّط کا ذکر ہورہا ہے اس میں مومن کی ساری زندگی اور اُس کے سارے پہلو نظر میں ہیں اور نبی مومنین پر ولایت مطلقہ رکھتا ہے۔ اور اس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر اللہ کا نبی کسی مومن کو کسی مسئلے پر کوئی حکم دے تو اس پر اس حکم کا انجام دینا واجب ہے اور اس کا دائرہ کار مومن کی تمام زندگی پر محیط ہے۔
” وَ مَا كاَنَ لِمُؤْمِنٍ وَ لَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضىَ اللَّه وَ رَسُولُه أَمْرًا أَن يَكُونَ لهمُ الخِيرَةُ مِنْ أَمْرِهمْ وَ مَن يَعْصِ اللَّه وَ رَسُولَه فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا” (الاحزاب/ 36)
اور کسی مومن مرد یا عورت کو اختیار نہیں ہے کہ جب خدا و رسول کسی امر کے بارے میں فیصلہ کردیں تو وہ بهی اپنے امر کے بارے میں صاحبِ اختیار بن جائے اور جو بهی خدا و رسول کی نافرمانی کرے گا وہ بہت روشن گمراہی میں مبتلا ہوگا۔
یہاں اس بات کو سمجهنے کی ضرورت ہے کہ رسول خدا ص کے کن احکام کی نافرمانی کی بات ہورہی ہے؟ یقینا یہاں منظور نماز اور روزے کے احکام کی نافرمانی مراد نہیں بلکہ یہاں رسول خدا ص کے بعنوان حاکم شرعی احکام کی نافرمانی مراد ہے۔ مثلا رسول خدا ص اگر کسی مومن سے کہیں کہ خندق کهودو اور سامنے والا یہ کام انجام نہیں دے تو یہ نافرمانی آنحضرت ص کے بعنوان حاکم حکم کی نافرمانی سمجهی جائے گی اور آیت شریفہ کا اشارہ اسی طرف ہے۔
اور اس کے علاوہ اور آیات بهی ہیں جو اس امر پر دلالت کرتی ہیں یعنی رسول خدا ص کو بطور حاکم تسلیم کرتے ہوئے مومنوں کو اس احکام کی پیروی کرنے کی تاکید کررہی ہیں کہ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام میں حکومت کا نفاذ اور اس کے احکام کی پابندی کتنی اہمیت رکھتی ہے۔
۔۲ وہ آیات کہ جو رسول خدا ص کو حکم دے رہی ہیں کہ احکام کو نافذ کریں
” يَأَيها النَّبِىُّ جَاهدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنَافِقِينَ وَ اغْلُظْ عَلَيهم” (التوبہ/ 73)
پیغمبر! کفار اور منافقین سے جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے۔
ایسا کب ہوگا؟ جب طاقت ہاتھ میں ہوگی۔ جب احکام کو نافذ کرنے کی قوت رسول خدا ص کے پاس ہوگی۔
” وَ الَّذِينَ اتخَّذُواْ مَسْجِدًا ضِرَارًا وَ كُفْرًا وَ تَفْرِيقَا بَين الْمُؤْمِنِينَ وَ إِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللَّه وَ رَسُولَه مِن قَبْلُ وَ لَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنىَ وَ اللَّه يَشهدُ إِنهمْ لَكَاذِبُون۔ لَا تَقُمْ فِيه أَبَدًا” (التوبہ/107، 108)
اور جن لوگوں نے مسجد ضرار بنائی کہ اس کے ذریعہ اسلام کو نقصان پہنچائیں اور کفر کو تقویت بخشیں اور مومنین کے درمیان اختلاف پیدا کرائیں اور پہلے سے خدا و رسول سے جنگ کرنے والوں کے لئے پناہ گاہ تیار کریں وہ بهی منافقین ہی ہیں اور یہ قسم کهاتے ہیں کہ ہم نے صرف نیکی کے لئے مسجد بنائی ہے حالانکہ یہ خدا گواہی دیتا ہے کہ یہ سب جهوٹے ہیں .خبردار آپ اس مسجد میں کبهی کهڑےبهی نہ ہوں۔۔۔
ان آیات اور اس کے علاوہ اور دوسری آیات میں رسول خدا ص کو بعنوان حاکم تصور کرتے ہوئے ان کو اسلام کی خاطر جنگ یا مجرموں کے خلاف آپریشن کرنے کا حکم دیا جارہا ہے۔ اور واضح سی بات ہے کہ ان احکام کا نفاذ بغیر حکومت کے ممکن نہیں جیسے فوج کا بنانا کیا بغیر حکومت کے امکان پزیر نہیں۔
۔۳ بیعت کی آیات
وہ آیات کہ جن میں مومنین سے رسول خدا ص کے ہاتهوں پر بیعت کرنے کے واقعے کا ذکر کیا جارہا ہے۔ یہ بیعت یقینا نماز اور روزے کے انجام دینے سے متعلق نہیں تهی بلکہ ان میں جو معاہدے رسول خدا ص دشمنوں سے مذاکرات کے بعد طے کرتے تهے ان پر عمل درآمد کے لئے یہ بیعت لی جاتی تهیں کہ جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول خدا ص صرف نماز و روزہ کے احکام پہنچانے نہیں آئے تهے بلکہ آپ ص کا اصلی مقصد حکومت اسلامی کا قیام تها۔
” إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّه” (الفتح/۱۰)
بیشک جو لوگ آپ کی بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ کی بیعت کرتے ہیں۔
۴۔ وہ آیات کہ جو رسول خدا ص کو دوسروں سے اموال لینے کا حکم دے رہی ہیں:
” خُذْ مِنْ أَمْوَالِهمْ صَدَقَةً تُطَهرُهمْ وَ تُزَكِّيهم بِها” (التوبہ/۱۰۳)
(اے رسول) آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکاہ کے عنوان سے) لیجیے، اس کے ذریعے آپ انہیں پاکیزہ اور بابرکت بنائیں۔
یقینا ٹیکس کا نظام قائم کرنا اور اس پر عمل درآمد کرانا بغیر حکومتی مشینری کے ممکن نہیں۔
۵۔ وہ آیات کہ جو مومنین کو احکام کے نفاذ کا حکم دے رہی ہیں:
مثلا آیت قصاص[2] یا وہ آیت جس میں مسمانوں کو حرام کهانے کو منع کیا گیا “وَ لَا تَأْكلُواْ أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِل” (البقرہ/۱۸۸)
یا امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے بارے میں آیت کہ جس میں مومنین سے اس کے انجام دینے کے بارے میں حکم دیا جارہا ہے۔ سورہ التوبہ آیت ۷۱ میں مومنین سے ارشاد ہوا
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّه وَرَسُولَه ۚ أُولَٰئِكَ سَيَرْحَمُهمُ اللَّه ۗ إِنَّ اللَّه عَزِيزٌ حَكِيمٌ
مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں سب ایک دوسرے کے ولی اور مددگار ہیں کہ اچهے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے اور نماز پڑهتے اور زکوٰة دیتے اور خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر خدا رحم کرے گا۔ بیشک خدا غالب حکمت والا ہے۔
الہی قوانین کا اجراء جب فردی نوعیت سے نکل کر اجتماعی شکل اختیار کرتا ہے تو یہ کام بغیر حکومت کے متصوّر نہیں۔ یعنی قصاص کے قوانین کا اجراء یا امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو انجام دینا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مسلمانوں کے ہاتهوں میں حکومت کی باگ دوڑ نہ ہو اور حاکم اسلامی قوانین کے اجراء کا ذمہ دار نہ ہو۔
ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ رسول خدا ص کی اطاعت تمام مومنین پر مطلقہ واجب ہے۔ اور بہت سارے احکام جن کے مخاطب رسول خدا ص ہیں پر عمل اجتماعی اور سیاسی قوت کے بغیر ممکن نہیں اور لازم ہے کہ رسول خدا ص یا مومنین کے پاس حکومت ہو تاکہ ان احکام پر عمل ہوسکے اور اسی لئے مدینہ میں رسول خدا ص نے حکومت کا قائم کی۔
یہاں تک ہم نے اسلام میں حکومت کی ضرورت پر مختصر بحث کی اور ہمیں امید ہے کی قاری اس بات کو تسلیم کرچکے ہونگے کہ حکومت کے بغیر اسلام، اللہ تعالی کو مقصود نہیں!!
اب آتے ہیں ایک اور مسئلہ کی طرف یعنی اصلی مسئلے کا آغاز غیبت کبری سے ہوتا ہے جب امت اسلامی کے پاس اللہ تعالی کی طرف معین امام تک رسائی ممکن نہیں رہی۔
یہاں دو باتیں ہیں؛
چونکہ خدا نے زمانہ غیبت میں حاکم کا تعین نہیں کیا ہے تو حکومت ہی نہیں بنائی جائے؟؟
یا دوسری بات کہ حکومت بنائی جائے اضطرار کے طور پر۔
یہ ایسے ہی ہے کہ اگر پانی نہیں ہو تو ایسا نہیں ہے کہ نماز ہی نہیں پڑهی جائے بلکہ تیمّم کرکے نماز پڑه لی جائے۔
البتہ یہاں یہ بات بتاتے چلیں کہ یہ حالات غیبت کے بعد سے مختص نہیں بلکہ عصر حضور میں بهی ایسے حالات رہے کہ جس میں ائمہ علیهم السلام کو حکومت بنانے کی شرایط حاصل نہیں ہوئیں۔ لیکن کیا انہوں سے اس کے لئے کوششیں نہیں کیں؟ یعنی جب ائمہ علیهم السلام نے دیکھا کہ ابهی حکومت بنانے پر قدرت نہیں رکھتے تو کیا انہوں نے اس کے لئے کوششیں بهی چهوڑ دیں؟
ایک تاریخی واقعہ آپ کی خدمت میں بیان کرتے ہیں کہ جس سے یہ واضح ہوجائے گا کہ ہر گز ائمہ علیهم السلام نے حکومت بنانے کی کوششوں کو نہیں چهوڑا تها اور اس کے لئے جس حد تک ممکن ہو تدبیر کرتے تهے۔
ایران میں ایک شہر اردهال ہے کہ جو کاشان کے نزدیک ہے۔ اس میں امام باقر علیہ السلام کے بیٹے علی بن محمد باقر نے امام وقت کے حکم سے مہاجرت کی اور تبلیغ دین اور محافظت دین کی ذمہ داری تین سال تک انجام دی اور ان کا اثر و رسوخ علاقے میں اتنا بڑه گیا کہ حکومت وقت کو اپنی حاکمیت خطرے میں لگی اور آپ کو انتہائی دردناک انداز سے شہید کیا گیا اور آپ اہل بیت علیهم السلام کے ایران میں پہلے شہید ہیں۔ [3]
اس تاریخی واقعہ سے یہ ظاهر ہوتا ہے کہ امام اور حاکم ہونا صرف ائمہ معصومین علیهم السلام سے مختص نہیں یعنی ایسا نہیں کہ صرف حکومت اسلامی کے حاکم معصومین ہی ہوسکتے ہیں بلکہ جس کو بهی شرایط مہیا ہوں، وہ حکومت کے قیام کی کوشش کرے۔
یعنی اللہ تعالی نے امت کا بهی وظیفہ رکھا ہے کہ وہ اضطرار کی حالت میں حکومت کا قیام عمل میں لائیں اور امام کی “نیابت” میں ایسا کریں۔ (اردهال کا واقعہ نیابت میں ہوا)
حکومت اسلامی: امام خمینی علیہ الرحمہ کی نظر
امام خمینی رح کی نظر میں حکومت اسلامی کا قیام ضروری ہے، جس طرح رسول خدا ص نے مدینہ میں حکومت بنائی یا امیر المومنین ع نے جب شرایط حاصل ہوئیں تو حکومت قائم کی اسی طرح غیبت کے زمانے میں بهی امّت اسلامی کا وظیفہ ہے کہ حکومت اسلامی کے قیام کی کوششیں کرے۔
جب حکومت کی ضرورت امام خمینی علیہ الرحمہ نے ثابت کردی (کہ جس کے دلائل نیچے پیش کئے جائیں گے) تو یہاں آکر امام خمینی علیہ الرحمہ نے حاکم کی شرایط پر بحث کی کہ اس کو فقیہ، عادل، حکومت کو چلانے کی استعداد رکھنے والا ہونا چاہئے (اور مزید شرائط جو توضیح میں لکهی ہیں)۔
:حکومت اسلامی کے دلایل
الف۔ عقل اس بات کی طرف دلالت کرتی ہے احکام اسلام کو معاشرے میں نافذ کیا جائے۔ اس بات کے لئے یہ تین مقدمات پیش کئے جاتے ہیں:
۱۔ تمام احکام اسلامی اور شریعت آج بهی اُسی طرح موجود ہیں جس طرح صدر اسلام میں تهی کہ جس کی دلیل یہ مشہور حدیث ہے کہ ” حَلَالُ مُحَمَّدٍ حَلَالٌ أَبَداً إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَ حَرَامُه حَرَامٌ أَبَداً إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَة” ( الكافي (ط – الإسلامية) ؛ ج1 ؛ ص58)
محمد ص کی طرف سے حلال کیا جانے والا قیامت تک حلال ہے اور آپ ص کی طرف سے حرام کئے جانے والا قیامت تک حرام ہے۔
۲۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ احکام اسلامی اسی لئے بهیجے گئے ہیں کہ ان کو نافذ کیا جائے۔ اور یہ بات معقول نظر نہیں آتی کہ اللہ تعالی نے احکام بنائے ہوں اور ان کو نافذ کرنے کا ارادہ نہیں کیا ہو۔
۳۔ ان احکام کو نافذ کرنے کے لئے حکومت کی ضرورت ہے۔
اس لئے واجب ہے کہ احکام اسلامی کے نفاذ کیلئے حکومت اسلامی کا قیام عمل میں لایا جائے۔
ب۔ نظام اسلامی کو محفوظ رکھنا اور اس میں خلل ڈالنے کی حرمت؛
اس دلیل کیلئے ۲ مقدمات پیش کئے جاتے ہیں؛
۱۔ نظام اسلامی کی حفاظت کرنا افضل ترین واجب ہے اور اس میں خلل ڈالنا بدترین حرام ہے۔
۲۔ نطام اسلامی کی حفاظت اور اس میں اختلال سے بچانے کیلئے حکومت کی ضرورت ہے۔
پس واجب ہے کہ اسلامی معاشرے کو بچانے کیلئے حکومت کی ضرورت ہے۔
ج۔ اسلامی ریاست کی سرحدوں کی حفاظت
یہ دلیل بهی دو مقدمات رکھتی ہے۔
۱۔ اسلامی ریاست کی سرحدوں کی دشمنوں کے حملوں سے حفاظت کرنا عقلا اور شرعا واجب ہے۔
۲۔ سرحدوں کی حفاظت حکومت کے بغیر ممکن نہیں۔
اس لئے واجب ہے کہ حکومت اسلامی ایجاد کی جائے۔
:روایات میں حکومت اسلامی کے قیام کی دلیلیں
ہم یہاں صرف چند احادیث کو پیش کررہے ہیں کہ جو حکومت اسلامی کے قیام کی طرف اشارہ کررہی ہیں:
۱۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: {الكافي، ج1 ؛ ص59}
إِنَّ اللَّہ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى أَنْزَلَ فِي الْقُرْآنِ تِبْيَانَ كُلِ شَيْءٍ حَتَّى وَ اللَّہ مَا تَرَكَ اللَّہ شَيْئاً يَحْتَاجُ إِلَيْه الْعِبَادُ حَتَّى لَا يَسْتَطِيعَ عَبْدٌ يَقُولُ لَوْ كَانَ هذَا أُنْزِلَ فِي الْقُرْآنِ- إِلَّا وَ قَدْ أَنْزَلَه اللَّه فِيه.
(بیشک اللہ تعالی نے قرآن میں ہر چیز کو بیان کیا ہے یہاں تک کہ خدا کی قسم بندوں کے ضرورت کی کسی چیز کے ذکر کو ترک نہیں کیا کہ کوئی بندہ یہ نہیں کہے کہ کاش یہ بهی قرآن میں ہوتا، کہ اُس کو بهی اللہ تعالی نے قرآن میں نازل کیا ہے۔ )
یہاں قرآن کے تبیان ہونے سے مراد وہ روشن قاعدے اور معیارات ہیں کہ جن کو سامنے رکھتے ہوئے انسان حقیقی کامیابی اور سعادت تک پہنچ سکتا ہے کہ جن میں اہم ترین مسئلہ حکومت کے چلانے کے راہنما اصول ہیں کہ جن کو قرآن سے سمجها جاسکتا ہے۔
۲۔ امام صادق علیہ السلام نے امیر المومنین ع سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا: “الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي لَمْ يُخْرِجْنِي مِنَ الدُّنْيَا حَتَّى بَيَّنْتُ لِلْأُمَّةِ جَمِيعَ مَا يَحْتَاجُ إِلَيْه” (من لا يحضرہ الفقيہ ؛ ج3 ؛ ص112)
تمام تعریفیں اُس اللہ کیلئے ہیں کہ جس نے مجهے اس دنیا سے اس وقت تک نہیں اٹهایا جب تک میں نے امّت کو وہ سب نہیں بتا دیا کہ جس کی ان کو احتیاج اور ضرورت تهی۔
اور یقینا انسان کی اہم ترین ضرورت حکومت ہے کہ جس کی طرف پہلے بهی اشارہ کیا جاچکا ہے۔
:نتیجہ
غیبت کے زمانے میں بهی اسلامی معاشرے کو اُسی طرح حکومت کی ضرورت ہے کہ جو عصر حضور میں تهی تو لازم ہے کہ اس کے لئے شریعت ایک اضطراری بدل قرار دے۔
اور یہ روایتیں اس بات پر دلالت کررہی ہیں کہ اسلامی معاشرے کی ضرورت کو ایک اضطراری ولایت کے ذریعہ پورا کیا جانا ایک یقینی امر ہے۔
۳۔ فضل بن شاذان نے امام رضا علیہ السلام سے ایک انتہائی طویل حدیث روایت کی ہے کہ جس میں چیزوں کی علتین بیان کی گئی ہیں:
ہم یہاں تین نکتے ذکر کریں گے کہ جس میں حکومت اور حاکم کا ذکر ہے
۱۔ جب مخلوق کو اُن کی حدود سمجها دی گئیں اور اُن کو حکم ہوا کہ ان حدود سے تجاوز نہیں کرنا کیونکہ اس میں اُن کے لئے فساد ہے ۔ اس بات کو عملی کرنے کیلئے “امین”(سرپرست) کو قرار دیا گیا کہ جس کا کام ان کو مباح چیزوں کے بارے میں بتانا اور طغیان اور خطرات سے روکنا ہے۔ ۔۔۔ تو ان کو لوگوں پر “قیّم” (نظام کو قائم کرنے والا) قرار دیا تاکہ وہ لوگوں کو فساد سے روکے اور اُن کے درمیان حدود اور احکام کو قائم کرے۔ [4]
حدیث کے ان جملات سے صاف واضح ہے کہ انسانوں کو فساد سے روکنے کے ہر زمانے میں “قیّم” یعنی ناظم کی ضرورت ہے چاہے وہ زمانہ معصومین علیهم السلام کا ہو یا غیبت کا زمانہ ہو کہ جس میں معصوم علیهم السلام تک رسائی ممکن نہ ہو۔
۲۔ بیشک ہم نے کسی فرقوں میں سے فرقہ اور ملتوں میں سے ملت نہیں پائی ہے مگر یہ کہ اُن میں نظام کا قائم کرنے والا اور رئیس نہ ہو۔ یہ (رئیس) لوگوں کے دین اور دنیا کیلئے ضروری ہے۔ تو حکیم کی حکمت میں یہ امکان نہیں کہ وہ مخلوق کو ایک ضروری چیز کہ جس کی ان کو ضرورت ہو، سے محروم کردے۔ [5]
اور انسانوں کو اچهی زندگی گزارنے کے لئے شاید سب سے اہم ضرورت عادل حاکم کی ہے۔ اب اگر معصومین علیهم السلام کی شکل میں انسانیت کی رسائی ممکن نہ ہو تو اس ضرورت سے انکار نہیں کیا جسکتا اور حاکم کہ جو عادل اور فقیہ ہو اس کا ہونا ضروری ہے۔
۳۔ اگر امام، قیّم، سرپرست،امنتدارکو قرار نہیں دیا جائے (یعنی متعین نہیں کیا جائے) تو ملّت طغیان کردے گی، دین ختم ہوجائے گا اور احکام اور سنّتیں تبدیل ہوجائیں گی۔ [6]
پہلے نکتے کا نتیجہ: نظام کی حفاظت لازم ہے۔ حقدار کو اُس کا حق دینا اور مجرم کو سزا دینا وغیرہ، یہ ساری کی ساری باتیں، زمانہ غیبت میں بهی موجود ہیں۔ تو یوں ہم زمانہ غیبت میں بهی حکومت اسلامی کے قائم کرنے کا حکم لگائیں گے۔
دوسرے نکتے کا نتیجہ: دوسرے مذاہب کی طرح مسلمانوں کو بهی اپنے دینی اور دنیاوی معاملات کے لئے رئیس کی ضرورت ہے کہ جو اِن کے دشمنوں سے مقابلہ کرے۔ یہاں زمان حضور اور غیبت میں کوئی فرق نہیں۔
تیسرے نکتے کا نتیجہ: اگر امام نہیں ہو تو دین میں فساد ہو جائے گا، تو یہ مسئلہ زمان حضور اور غیبت میں فرق نہیں رکھتا۔
۴۔ خطبہ فدک سے ایک اقتباس
بی بی زہرا سلام اللہ علیها نے اپنے عظیم الشان اور لاجواب خطبے میں امام کی اہمیت پر ایک جملہ فرمایا تها: ” وَ الْإِمَامَةَ لَمّاً مِنَ الْفُرْقَةِ” (من لا يحضرہ الفقيہ ؛ ج3 ؛ ص568)
(اللہ تعالی نے) امامت (کو فرض کیا تاکہ) جمیعت کو ملا کر رکھے۔
:نتیجہ
امت اسلامیہ کو ہر زمانے میں وحدت کی ضرورت ہے۔
اور وحدت اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک حکومت نہ ہو کیونکہ اس کے لئے طاقت کی ضرورت ہے۔ حدیث میں مقصود وحدت ہے، اب اگر امام معصوم موجود ہیں تو کیا بہتر!! لیکن اگر امام معصوم موجود نہیں ہیں اور غیبت کا زمانہ ہے تو یہ مقصد ہر گز زائل نہیں ہوتا، اور یہاں سے حکومت اسلامی اور نائب امام کی ضرورت واضح ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ اور بہت سی احادیث موجود ہیں کہ جن سے حکومت اسلامی اور حاکم کی ضرورت کو واضح طور پر سمجها جاسکتا ہے۔
اب اگر معصوم ہستی مسلمانوں کے درمیان موجود ہیں تو حاکم انہی کو بنایا جائے گا لیکن اگر ایسا نہیں اور ان تک رسائی ممکن نہیں تو ایک ایسی شخصیت کو حکومت اسلامی کا حاکم بنایا جائے کہ جو فقیہ، عادل، زمانہ شناس اور حکومت کے نظام کو چلانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
امید ہے اس مختصر سی تحریر سے اجمالی طور ہی صحیح قاری کو اس اہم ترین موضوع یعنی حکومت اسلامی اور ولایت فقیہ کی اہمیت کو سمجهنے میں مدد ملے گی۔
اگر اس ضمن میں قاری کے ذہن میں سوالات آئے ہیں تو ان کو کتابچے میں دیئے گئے ای میل ایدریس پر ارسال فرمائیں، انشاللہ ان کا جواب مناسب وقت میں دے دیا جائے گا۔
الحمد للہ رب العالمین۔
[1] کلینی، الکافی، ج5ص293؛ شیخ طوسی، تھذیب الاحکام، ج7ص147؛ حر آملی، وسایل الشیعہ، ض25ص429
[2] وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ بقرہ 179
[3] http://www.ardehal.org/Article.aspx?i=30044
[4] مِنْهَا أَنَّ الْخَلْقَ لَمَّا وَقَفُوا عَلَى حَدٍّ مَحْدُودٍ وَ أُمِرُوا أَنْ لَا يَتَعَدَّوْا ذَلِكَ الْحَدَّ لِمَا فِيهِ مِنْ فَسَادِهِمْ لَمْ يَكُنْ يَثْبُتُ ذَلِكَ وَ لَا يَقُومُ إِلَّا بِأَنْ يَجْعَلَ عَلَيْهِمْ فِيهِ أَمِيناً «4» يَمْنَعُهُمْ مِنَ التَّعَدِّي وَ الدُّخُولِ فِيمَا حُظِرَ عَلَيْهِمْ لِأَنَّهُ لَوْ لَمْ يَكُنْ ذَلِكَ لَكَانَ أَحَدٌ لَا يَتْرُكُ لَذَّتَهُ وَ مَنْفَعَتَهُ لِفَسَادِ غَيْرِهِ فَجَعَلَ عَلَيْهِمْ قَيِّماً يَمْنَعُهُمْ مِنَ الْفَسَادِ وَ يُقِيمُ فِيهِمُ الْحُدُودَ وَ الْأَحْكَام { عيون أخبار الرضا عليه السلام ؛ ج2 ؛ ص100}
[5] مِنْهَا أَنَّا لَا نَجِدُ فِرْقَةً مِنَ الْفِرَقِ وَ لَا مِلَّةً مِنَ الْمِلَلِ بَقُوا وَ عَاشُوا إِلَّا بِقَيِّمٍ وَ رَئِيسٍ وَ لِمَا لَا بُدَّ لَهُمْ مِنْهُ فِي أَمْرِ الدِّينِ وَ الدُّنْيَا فَلَمْ يَجُزْ فِي حِكْمَةِ الْحَكِيمِ أَنْ يَتْرُكَ الْخَلْقَ مِمَّا يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا بُدَّ لَهُ مِنْهُ
عيون أخبار الرضا عليه السلام ؛ ج2 ؛ ص101
[6] وَ مِنْهَا أَنَّهُ لَوْ لَمْ يَجْعَلْ لَهُمْ إِمَاماً قَيِّماً أَمِيناً حَافِظاً مُسْتَوْدَعاً لَدَرَسَتِ الْمِلَّةُ وَ ذَهَبَ الدِّينُ وَ غُيِّرَتِ السُّنَنُ وَ الْأَحْكَام
عيون أخبار الرضا عليه السلام ؛ ج2 ؛ ص101