ماہ محرم، ماہ حُسینیَت

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ماہ محرم اسلامی اقدار میں ایک زندہ تاریخ ہے۔ محرم کے روز عاشورہ میں ایک ایسا انقلاب برپا ہوا جس نے اسلام کی خشک ہوتی جڑوں کی اپنے خون سے آبیاری کی اور اسلام کو حیاتِ مجدد بخشی ہے۔ اس مہینے میں ایک ایسا بے نظیر حماسہ وجود میں آیا جس میں مظلوم نے اپنے ہی خون میں غلطہ ہوکر ظالم کو شکست دی اور اس کے مکروہ چہرے سے منافقت کی نقاب کھینچ لی اور خلیفہ اللہ کہلائے جانے والے فاسق و فاجر حاکم کو بے نقاب کردیا۔ ایک ایسی مظلومیت جس نے ظالم کو تا ابد رسوا کردیا ہے۔ محرم وہ مہینہ ہے جس میں کربلا کے محدود سے علاقے میں اللہ کے مقرّب بندوں کا خون بہایا گیا لیکن اس خون نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور دنیا کا کوئی گوشہ نہیں جہاں ان کی مظلومیت کی فتح کی خبر نہ سنائی گئی ہو اور ظالم کی شکست کا اعلان نہیں کیا جارہا ہو۔ محرم جس کو دور جہالت میں حرمت حاصل تھی او اس مہینے میں خوں ریزی حرام تھی، مگر مسلمانوں نے اللہ کے بہترین اورافضل ترین بندگان کا خون دین کی خدمت سمجھتے ہوئے بہایا۔
ماہ محرم یعنی تشیُع کا دین اسلام کے حقیقی وارث سے تجدید عھد کا مہینہ۔ ماہ محرم کی آمد آمد ہے۔ محرم جس کا آغاز سرکار سید شہداء علیہ السلام کے ان جملوں سے ہوتا ہے ” مثلی لا یُبایعُ مثل یزید”۔ مولا امام حسین علیہ السلام نے اس جملے میں ایک معیار قرار دیا ہے آپ نے اس کلام کو اپنی ذات تک محدود نہیں کیا بلکہ وسیع موضوع میں تبدیل کردیا۔ اس جملے نے رہتی دنیا تک انسانوں کو تین حصوں میں تقسیم کردیا۔

پہلا گروہ وہ ہے جنہوں نے سید شہداء ع کے اس جملے میں خود کو شریک قرار دیا اور “مثلی” یعنی مجھ جیسے” کی حدود میں داخل ہوکر ہمیشہ ہی یزید اور یزیدیت کے خلاف آواز اٹھائی۔ یہ لوگ ظلم اور ظالم کے خلاف ہمیشہ ہی برسر پیکار رہے۔ جہنوں نے اپنے مولا ابا عبداللہ الحسین ع کی طرح اپنے لیے اللہ کی ولایت کو معیار قرار دیا اور طاغوت کی سرپرستی کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور قرآن میں ان کے لیے ارشاد ہوا ” اللّه وليُ الذينَ آمنوا يُخرِجُهُم منَ الظُّلُماتِ الی النورِ” 1امام حسین علیہ السلام نے مِنا کے خطبے میں غدیر کو ایک مرتبہ پھر زندہ کردیا اور آپ نے دنیا پر واضح کردیا کہ آپؑ صرف علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے حقیقی مولائی ہیں جو کسی صورت ظلم کو برداشت نہیں کرے سکتے یہ افراد بھی امام کی پیروی کرتے ہوئے صرف علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کا انتخاب کرتے ہیں۔

 دوسرا گروہ ان افراد کا ہے ، جنہوں نے دنیا اور اس کی لذتّوں کی خاطر وقت کے امام اور اللہ کی ولایت کا انکار کرکے طاغوت کی سرپرستی قبول کرلی جس کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ” فَزَیَّنَ لَھُمُ الشیطانُ اعمالَھُم فَھوَ ولیُھُم الیومَ” شیطان نے ان کے اعمال کو خوبصورت بنا کر پیش کیا اور شیطان دنیا میں ان کا سرپرست ہے”۔2 یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ ہی اللہ کی ولایت کے مقابلے میں ولایتِ شیطان کو قبول کرلیتے ہیں تاکہ اپنی دنیا کو حاصل کرسکیں۔ جنہوں نے آخرت کے بدلے دنیا کو خرید کر گھاٹے کا سودا کیا۔ یہ افراد اپنے منافع کے لیے نہ صرف حق کو قبول نہیں کرتے بلکہ حق کو باطل کے ذریعے چُھپانے کی کوشش بھی کرتے ہیں جس کا مظاہرہ ہم ہر سال محرم کی ابتدا میں دیکھتے ہیں کہ کچھ افراد یزید اور یزیدیت کے دفاع میں کہتے نظر آتے ہیں “کربلا تو دو شہزادوں کی جنگ تھی، کبھی کہتے ہیں اللہ نے یزید کو معاف کردیا، کبھی یزید کا کوئی قصور نہیں تھا وغیرہ وغیرہ۔۔۔ یہ تمام باتیں حق پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہیں جس کی قرآن نے مذمت فرمائی ہے ” وَلاَ تَلْبِسُوا الحقَّ بِالبَاطلِ وَ تَکْتَمُوُا الْحقَّ وَاَنْتُم تَعْلَمُونَ”۔3

تیسرا گروہ ان افراد کا ہے جو بے طرف اور گوشہ نشین رہنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ یہ افراد ہمیشہ ہی ظلم کا نظارہ کرنے والے ہیں۔ یہ لوگ دنیا کی آسائشوں کے چھن جانے کے خوف سے حق سے دور رہتے ہیں اور چُپ چاپ ظالم کے ظلم کا تماشہ کرتے ہیں اس خوش فھمی میں کہ ظالم کے ہاتھ ان تک نہیں پہچیں گے اور یہ ظلم کا شکار نہیں بنیں گے۔ ظاھراً خود کو امن پسند اور صلح پسند ظاھر کرتے ہیں جو کہ ان کا ایک حربہ ہوتا ہے تاکہ خود کو حق و باطل کے معرکے سے دور رکھ سکیں۔ لیکن ان کی تمام کوششیں بے اثر ثابت ہوتی ہیں۔ حق سے دوری اور ظالم سے بے اعتنائی ان کے دامن گیر ہوجاتی ہے اور ظالم کے ظلم سے یہ بھی محفوظ نہیں رہ پاتے۔ جو ان کے لیے دنیا و آخرت میں خسارے کا باعث ہوتا ہے اور “خَسِرَ الدُّنْیا وَالاْآخِرَةَ ذلِک هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِینُ” کے مصداق قرار پاتے ہیں۔ 4

ہم حسینی ہیں اور ہماری پہچان عاشورہ ہے، ہم مولائی ہیں اور ہمارا شعار ولایت ہے۔ ہم اُن لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے کبھی ذلت کو قبول نہیں کیا اور نہ ہی قبول کریں گے۔ ہم نے اپنے مولا ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کی طرح اپنے لیے اللہ کی ولایت کو پسند کیا اور ولایت امیرالمومنین ع کا انتخاب کیا ہے۔ ہم کبھی کسی طاغوت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور نہ ہی ان افراد کی طرح ہیں جو دنیا کی خاطر حق و باطل کے معرکے میں بے طرف رہتے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ ہی اپنے مولا سرکار سید شہداء علیہ السلام کی اتباع کرتے ہوئے ظالم کو للکارا ہے اور ظالم کی مذمت کی ہے اور حق کا ساتھ دیا ہے چاہے ہمیں اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینی پڑے۔ ہمارے جوان عَلم حضرت عباس علمدار ع اٹھاتے ہیں تاکہ دنیا کو دکھا دیں کہ ہم حق کے حامی اور باطل سے بیزار ہیں۔ ہمارے جلوس و عزاداری ظلم کے خلاف ایک عالم گیر تحریک ہے جو ہمیشہ قائم رہے گی۔ ہمارے جلوس و عزادری کے انتظامات سنبھالتے جوان اس عالمی تحریک کے سپاہی ہیں جن کے دل ولایت امیرالمومنین علیہ السلام سے سرشار ہیں اور اُن کا شعار حُسینیَت ہے۔ کربلا کے پیاسوں کی یاد میں سبیلوں پر پانی پلاتے نوجوان، بزرگ و بچے دنیا میں موجود مظلوموں سے حمایت کا اعلان اور ظالم سے برائت کا اظھار کرتے ہیں۔
دنیا میں ظالم کے ظلم کا بازار گرم ہے، یمن، فلسطین، عراق، افغانستان، پاکستان ، کشمیر اور میانمار میں استعمار ظلم ڈھا رہا ہے۔ آج امریکہ اور اس کے حواری یزیدیت کے نمایندے ہیں۔ لیکن اس دور میں اپنے جدّ حسین ابن علیؑ کی طرح صدائے “ھل من ناصرٍ” بلند کرتے فرزند زھرا اور حسینیت کے پرچم بردار ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای نے اس منہ زور اور سر پِھرے طاغوت کو واضح کردیا ہے کہ ظلم کی بساط سمٹنے والی ہے اور ہم کسی صورت تمہاری یزیدی فکر کو تسلیم نہیں کریں گے۔ یہ حسین ابن علی علیہ السلام کا فرزند اپنے جد کی سیرت پر چلتے ہوئے مظلوم کی حمایت کررہا ہے اور ظالم کے منصوبوں کو ناکام بنا رہا ہے۔ ہمارے جوان بھی اپنے قائد اور ولی امرمسلمین سید علی خامنہ ای کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے مظلوم کی حمایت اور ظالم سے برائت کرتے رہیں گے جہاں کہیں بھی ظلم ہوگا ہم اس کے خلاف آوز اٹھائیں گے اور جہاں مظلوم ہوگا ہم اس کی حمایت کے لیے میدان عمل میں موجود ہوں گے کیوں کہ ہماری درسگاہ کربلا ہے۔ آج ہم امام زمانہ عجل تعالی شریف کے نائب کی حمایت میں میدان میں موجود ہیں تاکہ ہمارے امام علیہ السلام ظھور کے وقت ہمیں اپنے لشکر میں بھی شامل فرمائے۔
پروردگار ہمیں حسینی زندہ رکھ اور ہمیں حسینی دنیا سے اٹھا۔۔۔

⦁ سورہ بقرہ 257
⦁ سورہ نحل 63
⦁ سورہ بقرہ 42
⦁ سورہ حج 11

مصنف: مولانا محسن ناصری

Recommended Posts

No comment yet, add your voice below!


Add a Comment