امام جعفر صادق علیه السلام نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ “يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبادِي وَ ادْخُلِي جَنَّتِي يعني الحسين بن علي ع” (تفسیر قمی، ج 2، ص422) یہ مشہور و معروف آیہ شریفہ کہ جو سورہ مبارکہ الفجر کی ۲۸، ۲۹، ۳۰ آخری آیات ہیں۔ ان آیات کا کامل مصداق احادیث میں آیا ہے کہ امام حسین علیہ السلام ہیں۔ علامہ طباطبائی “نفس المطمئنہ” اور “مرضیہ” کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ؛ النفس المطمئنة ایسا نفس ہے کہ جس کو اپنے رب میں سکون مل گیا ہے اور جس چیز سے اسکا رب راضی ہے وہ بھی راضی ہے۔ تو وہ اپنے نفس کو مکمل الہ کا غلام سمجھتا ہے کہ جس کا نہ ہی کسی خیر پر اور نہ شر پر اور نہ کسی نفع یا نقصان پر کوئی اختیار ہے۔ اور دنیا کو دار مجاز دیکھتا ہے۔ تو جو چیز بھی اس دار مجاز میں دیکھتا ہے چاہے وہ غنی ہو یا فقر یا جو بھی نفع ہو یا فقر، انکو ابتلاء اور امتحان دیکھتا ہے۔ اللہ سبحانہ نے جو نفس مطمئنہ کی راضیا مرضیہ سے توصیف کی ہے اس لئے کہ اس نفس کا اپنے رب کی نسبت مطمئن ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ یہ تکوینی طور پر تمام قضا اور قدر سے راضی ہے یا یہ کہ تشریعی طور پر بھی جو حکم اس کو دیا جائے اس سے بھی راضی ہے۔ پس کوئی سانحہ اسکو غضبناک نہیں کرتا اور کوئی معصیت اور برائی اسکو منحرف نہیں کرتی۔ (الميزان ج20؛ ص278) امام عالی مقام اپنی گردن پر اللہ تعالی کی طرف سے ذمہ داری کا احساس کررہے ہیں، وہ دیکھ رہے ہیں کہ جیسا کہ آپ نے کربلا کے واقعہ کے چند سال پہلے منی کے مقام پر بنی ہاشم کے مردوں اور عورتوں کو، اور ان انصار کو کہ جو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے خاندان کو پہچانتے تھے، جمع کیا اور کہا؛
فَأَمَّا حَقَّ الضُّعَفَاءِ فَضَيَّعْتُمْ
اور اگر ضعفاء کے حق کے بارے میں دیکھا جائے تو تم لوگوں نے اس کو بالکل پامال کیا ہے
وَ أَمَّا حَقَّكُمْ بِزَعْمِكُمْ فَطَلَبْتُمْ
لیکن جس چیز کو اپنی سمجھ میں اپنا حق سمجھتے ہو اسکو پورا کا پورا حاصل کیا ہے
فَلَا مَالًا بَذَلْتُمُوهُ وَ لَا نَفْساً خَاطَرْتُمْ بِه
نہ تو راہ خدا میں کوئی مال و دولت دی ہے نہ اپنی جان کو کسی خطرہ میں ڈالا ہے
وَ قَدْ تَرَوْنَ عُهُودَ اللَّهِ مَنْقُوضَةً
اور تم لوگ دیکھ رہے ہو کہ اللہ سے کئے گئے وعدہ توڑے جارہے ہیں
فَلَا تَفْزَعُونَ وَ أَنْتُمْ لِبَعْضِ ذِمَمِ آبَائِكُمْ تَفْزَعُونَ وَ ذِمَّةُ رَسُولِ اللَّهِ ص مَحْقُورَةٌ
اور تم لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ اگر تمھارے آباء و اجداد کے وعدوں کو توڑا جائے تو تم تڑپ جاتے ہو
ایک اور مقام پر امام حسین علیہ السلام فرما رہے ہیں؛
“إِنَّمَا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الْإِصْلَاحِ فِي أُمَّةِ جَدِّي ص أُرِيدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ أَنْهَى عَنِ الْمُنْكَر”
بیشک میں خروج کررہا ہوں تاکہ اپنے جد کی امت کی اصلاح کروں اور میں نے ارادہ کیا ہے کہ امر بالمعروف کروں اور نہی از منکر کروں۔
اور یہاں ضمنا اس اشکال کا جواب دے دیں کہ جب امام علیہ السلام کو پتا تھا تو پھر کیوں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا؟ اشکال کرنے والے کو چاہئے کہ حکمت الہیہ پر اشکال کرے کیونکہ اگر فرض کریں کہ اللہ سبحانہ ۱۷ کی جگہ ۱۱۷ ایک دن میں رکعتوں کو فرض کر دیتا تو جن جن کے پیروں میں درد ہوتا اور وہ شکایت کرتے تو یہ شکایت اللہ تعالی کی حکمت الہیہ پر ہوتا۔۔۔۔۔ یہاں بھی امام عالی مقام کا یہ قیام کرنا ان کی ذمہ داری تھی، اور امکان نہیں تھا کہ وہ اس الہی ذمہ داری کو انجام نہیں دیتے۔
عزیزان!! انسان کا سوائے لقای الہی (قُرب الہی) کے اور کیا مقصد ہے؟؟؟ اور اگر ایسی ذمہ داری مل جائے کہ جس میں اختیاری لقای الہی جلدی میسر ہوجائے تو کیا کہنا؟ کیا یہ بات بہت انہونی ہے؟ کیا ہم نے اس زمانے میں ایسے واقعات نہیں دیکھے کہ جب مجاہدین نے موت کو اختیار کیا ہو؟ mines کے اوپر لیٹ جانا تاکہ دوسرے اس جگہ کو عبور کرسکیں یا حزب اللہ کے خود کش بمبار؟؟؟
یہ امام علیہ السلام کے غلاموں کی کیفیت ہے تو خود امام علیہ السلام کی کیا کیفیت ہوگی؟
اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے جیسے عصر عاشور کا وقت قریب آرہا تھا تو امام علیہ السلام کا چہرہ کھلتا جارہا تھا۔۔۔۔
امام علیہ السلام موت کو سعادت سمجھ کر گلے لگا رہے ہیں؛ ایک مقام پر آپ ع نے فرمایا؛
“لَا أَرَى الْمَوْتَ إِلَّا سَعَادَةً وَ لَا الْحَيَاةَ مَعَ الظَّالِمِينَ إِلَّا بَرَما”
میں نہیں دیکھتا موت کو مگر سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کرنے کو مگر ذلّت اور رسوائی!
ایک اور جگہ آپ ع نے فرمایا؛
“ويلى عليك يا ابن الزّرقاء! تف ہو تجھ پر اے زرقاء کے بیٹے
زرقاء مروان بن حکم کی دادی کا نام تھا کہ
أنت تأمر بضرب عنقى؟ كذبت و لؤمت، کیا تو میرے قتل کا پ حکم دیتا ہے؟! تو جھوٹ بولتا ہے اور تو پست انسان ہے.
نحن أهل بيت النبوّة و معدن الرّسالة، و يزيد فاسق، شارب الخمر، و قاتل النفس، و مثلى لا يبايع لمثله، و لكن نصبح و تصبحون، أينا أحق بالخلافة و البيعة.
ہم اہل بیت نبوت ہیں، رسالت کے منبع ہیں، اور یزید فاسق، شراب خور، لوگوں کا قاتل ہے، اور میرے جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔ تو ہم بھی صبح کریں گے اور تم بھی تو دیکھیں گے کہ خلافت اور بیعت کا حق کس کے ساتھ ہے؟
ایک مقام پر امام حسین علیہ السلام فرما رہے ہیں؛
“مَنْ كَانَ بَاذِلًا فِينَا مُهْجَتَهُ
جو بھی چاہتا ہے اپنے خون دل کو ہماری خاطر نثار کرے
وَ مُوَطِّناً عَلَى لِقَاءِ اللَّهِ نَفْسَهُ
اور جو بھی اللہ سے ملاقات کی آرزو رکھتا ہے
فَلْيَرْحَلْ مَعَنَا فَإِنَّنِي رَاحِلٌ مُصْبِحاً إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى
تو اس کو چاہیئے کہ ہمارے ساتھ چلے کہ انشاللہ میں صبح کوچ کرنے والا ہوں
حضرت علی اکبر علیہ السلام اپنے والد سے ایک مقام پر پوچھتے ہیں
“اً أَ لَسْنَا عَلَى الْحَقِّ؟ ” کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟
قَالَ بَلَى امام حسین علیہ السلام جواب میں کہتے ہیں ہاں
قَالَ فَإِنَّنَا إِذاً لَا نُبَالِي أَنْ نَمُوتَ مُحِقِّينَ
تو حضرت علی اکبر ع فورا کہتے ہیں کہ؛ تو ہمارے لئے پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ موت ہم پر آپڑے۔
ان تمام اقوال سے واضح طور پر یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ امام حسین ع اللہ تعالی بندگی میں کچھ اس طرح ضم ہوچکے تھے کہ ان کو نہ صرف یہ کہ اس راہ میں اپنی جان کا کوئی خوف نہیں تھا بلکہ انہوں نے اپنی شہادت کے میدان کو بہترین انداز سے سجایا، بہترین اصحاب کو جمع کیا تاکہ انسانیت کی تاریخ میں حق اور باطل کا یہ معرکہ معیار کے طور پر محفوظ رہے۔
مصنف: مولانا طالب حیدر
No comment yet, add your voice below!