عزاداری کے دشمن اور انکا طریقہ کار

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مصنف: مولانا هاشم رضا

علنی دشمن ناصبی و طاغوتی طاقتیں

جو عزاداری کو امام حسین علیہ سلام کے قیام کا تسلسل سمجھتے ہیں اوراسکو حقیقی اسلام کا محافظ اور امام زمان علیہ سلام کی عالمی حکومت کا مقدمہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے انکی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ عزاداری بالکل ختم کرد ۔ اس مقصد کیلئے وہ ہر ہربہ استعمال کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔

جیسے عزاداروں پر دہشت گردانہ حملے اور انکا بے رحمانہ قتل ، یہ کام آج سے نھیں ہورہا بلکہ تاریخ سے ہر آشنا انسان جانتا ہے اور ہم اپنے جوانوں سے درخواست کرینگے کہ تاریخ کا مطالعہ کریں کہ تشیع نے اس عزاداری کے لیے کیسی کیسی قربانیاں دیں ہیں۔ امام حسین کی صرف ایک بار زیارت کے لیے اپنے جسم کی اعضاء کٹوائے ہیں۔ اپنے پیاروں کے جنازے اٹھائے ہیں۔ اور آج بھی گذشتہ تاریخ کی طرح عزاداران امام حسین علیہ سلام امام حسین کی محبت جو ایمان و اسلام کی بقاء کی ضامن ہے ، کیلیے ہر سال ملک کے گوشہ کنار اور دنیا بھر میں تکفیریوں کے بھیمانہ دہشت گرد حملوں کے سائے میں عزاداری برپا قائم کررہے ہیں۔

انکا دوسرا طریقہ واردات، سیاسی نفوذ استعمال کرتے ہوئے عزاداری اور مکتب تشیع کے خلاف قانونی محدودیتیں ایجاد کرنا ہے۔ کبھی تحفظ ناموس صحانہ بل پیش کیا جاتا ہے تو کبھی تحفظ بنیاد اسلام ۔ تو کبھی مذہبی منافرت، نا امنی اور دیگر مسائل کا بھانہ بناکر عزاداری کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں۔ البتہ یہاں قومی تنظیموں ،انجمنوں اور امام بارگاہوں کے ٹرسٹیز کی ذمہ داری ہے کہ دشمن کی ان سازشوں سے باخبر رہیں ، عوام کو بھی باخبر رکھیں اور انکی روک تھام کیلیے منظم سیاسی جدوجھد کریں کیونکہ سیاسی و قانونی سازش کا جواب سیاسی اور قانونی راہ سے ہی ممکن ہے۔رائج سیاست میں حق صرف انکوں ملتا ہے یا انکی بات مانی جاتی ہے جو طاقتور ہیں ۔ کمزورں کی کوئی شنوائی نھیں ۔


تیسرا طریقہ: شبھات کے ذریعہ لوگوں کے ایمان کی تضعیف کرنا۔ دشمن جب کسی مکتب کو فزیکلی طور پر مٹآنے میں ناکام ہوجاتا ہے تو پھر وہ کوشش کرتا ہے کہ لوگوں میں انکے اعتقاد کی نسبت شبھات ایجاد کرے تاکہ وہ خود ہی عزاداری سے ہاتھ اٹھالیں یا پھر اس کی طرف سے بے توجہ ہوجائیں ۔ دونوں صورتوں میں دشمن کا فائدہ ہوتا ہے۔ کبھی تاریخی شبھات اٹہائے جاتے ہیں کہ مثلا امام حسین کو تو شیعوں نے قتل کیا تھا ، کیونکہ کوفی شیعہ تھے۔ یا امام حسین علیہ سلام نے امت میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کی تھی، تو کبھی اعتقادی شبھات اٹھائے جاتے ہیں کہ رونا بدعت ہے ، یا شھادت پر تو خوشی مناتے ہیں اور کبھی سیاسی شبھات اٹھائے جاتے ہیں جیسے یہ دو شھزادوں کی جنگ تھی ۔ اس کا اسلام سے کیا تعلق ۔ اب ممکن ہے کہ کرونا کے پھیلاو کا بہانے سے عزاداری کو کاملا محدود یا بند کرنے کی باتیں کی جائیں۔ شبھات کا جواب بصیرت اور ہوشیاری سے دینا چاہیے۔ خاص نوجواں کو چاہیے کہ اپنے دینی اور تاریخی مطالعات کو زیادہ کرے۔ سیاسی و سماجی مسائل خصوصا ملک میں موجود مختلف مذہبی اور سیاسی گروہ اور انکے نظریات کو جانئیے تاکہ شبھات کی نوعیت اور انکے جواب دے سکیں ۔ شبہہ اگر زیادہ دیر تک اس کا جواب نا دیا جائے تو انسان کے عقیدہ کو متزلزل کردیتا اور اسکا عقیدہ سست ہوجاتاہے۔اس سلسلے میں میڈیا کا بڑا رول ہے۔ ٹاک شو ز ، اخباری مقالات کے ذریعہ شبھات پہلائے جاتے ہیں۔

چوتھا طریقہ: عزاداری میں تحریف اور بدعت گزاروں کی حمایت ۔ کسی بھی دین اور مکتب کی افادیت کو ختم کرنے کرنے کے لیے دشمنان دو کام کرتے ہیں۔ ایک دینی تعلیمات میں تحریف کرتے ہیں ۔ اور لوگوں کی جھالت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نئی نئی بدعتیں ایجاد کرتے ہیں ۔ تاکہ دین کو اندر سے اور اسی کے ماننے والوں کے ہاتھوں اور دین کے نام پر نامحسوس طور پر نابود کردے۔ جس کی قرآنی مثال سامری کی ھے۔ اس نے بنی اسرائیل کی جھالت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ، دین کی نام پر کہ یہی تمھارا خدا ہے گوسالہ پرستی پر لگادیا۔ اسلیے امیرالمومنین کا فرمان ہے کوئی بھی چیز بدعت کی طرح دین کو نابود نھیں کرتی۔ عزاداری میں تحریف کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ عزاداری کو ایک محض رسم کے طور پر منایا جائے جس کے خاص آداب و کام ہیں بس اور اسکا کوئی مقصد و ہدف نھیں۔ اور بعض اوقات اس قسم کی باتیں خود سادہ لو اور غلط فکر رکہنے والوں کی طرف سے پیش کی جاتئ ہیں ۔ جس کی وجہ سے عزاداری اور ا س کے مقصد کو ٹھیس پہچتا ہے۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ اپنی دینی بصیرت میں اضافہ کریں۔ امام حسین علیہ سلام کے کلمات اور خطبات جو امام نے مدینہ سے کربلا تک بیان کیے اور ان میں اپنے قیام کی وجوہات بیان کیں ، ان کا مطالعہ کریں تاکہ اس قسم کی انحرافی افکار اور غیر شرعی کام جو دین کی رسوائی اور عزاداری کے اثرات کو کم کرتے ہیں ۔ ان کو سمجھ کر اپنی عزاداری کو محفوظ کرسکیں۔

Recommended Posts

No comment yet, add your voice below!


Add a Comment